برّصغیر پاک و ہند میںفرقہ واریت کا مسئلہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بے عملی اورمعاملہ فہمی کی کمتر صلاحیتوں کی بدولت کینسرکی شکل اِختیار کرتا جارہا ہے اوراس کی جڑیں معاشرےکے اندرگہرائی تک اترجانے کی اصل وجہ بیماری کی شدت نہیں بلکہ علاج کی عدم موجودگی اورتشخیص کے اِلتباسات ہیں۔ قانون کے بارے میں لوگوںنے بہت کچھ خوش فہمیاں قائم کررکھی ہیںلیکن جن لوگوںنے اسے بنایا تھا انہوںنے اس کا تصوّر ہتھیارگھماتے ہوئے ایک نابینا پیکر کی شکل میں پیش کیاتھا یہی سبب ہے کہ قانون کا احترام سب پرفرض ہے ۔ صدیوں سے قانون کا احترام کرتے ہوئے ایک ایسی سوسائٹی کے قیام کا خواب دیکھا جارہا ہے ‘ جس میںپولس اورفوج کی ضرورت باقی نہ رہے ۔دراصل انسان تعزیرسے زیادہ جرائم کے رجحان سے خوف زدہ رہتاہے ۔ قانون سزا ضرور دے سکتا ہے مگرجرم پرقابونہیں پاسکتا کیونکہ جرائم جب تک انفرادی حدودتک رہتے ہیںقابل تعزیرسمجھے جاتے ہیں لیکن جب وہ اجتماعی عادت بلکہ فطرتِ ثانیہ کی شکل اختیارکرجائیں تو لوگوں کی اکثریت ان کے حق میں ہوجاتی ہے اور وہیں سے قانون کا عمل بھی تبدیل ہوجاتاہے لہٰذا وہ ان کو روکنے کے بجائے ان کے تحفظ کی خاطراستعمال ہونے لگتاہے ۔ دنیا میںماضی قریب تک امردپرستی اورہم جنس پرستی مذموم فعل اورجرم تھی لیکن آج برطانیہ ‘سویڈن اورکئی دوسرے مغربی ممالک میں وہ ایک ایسا فعل بن گئی ہے جس پراعتراض کرنا خلاف قانون ہے۔
وطنِ عزیز میں آج احمدیوں، شیعوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور بھارت میں آسام، بہار، اترپردیش، گجرات اور مہاراشٹر میںمسلم اقلیت کے خلاف جوکچھ ہوا ہے اس سے بھی اگر کچھ واضح ہوتا ہے تو وہ یہی ہے کہ قانون ایک ایسا ہتھیار ہے جوافراد کے لیے سخت اورمعاشرے کے لیے نرم اور بے بس نظر آنے لگتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرقہ پرستی کے انسداد میں قانون کوئی واضح کردارادانہیں کرسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میںقانون کی حیثیت ایک سپلیمینٹری آبجیکٹ یا ہتھیار کی سی ہوتی ہے جوحصولِ مقصد میںمددگار و معاون تو ہو سکتا ہے مگر ازخود کچھ نہیں کر سکتا۔ اسے حرکت میںضرورلایا جاسکتا ہے وہ خودبخود حرکت نہیں کر سکتا۔ فرقہ پرستی معاشرے کی نظرمیں اس طرح کا جرم نہیںجیسا کہ قتل، ڈاکہ زنی اورچوری ہے، یہ الگ بات ہے کہ فرقہ پرستی کی بدولت چوری اورڈاکہ زنی سے کہیں زیادہ سنگین اورروح فرسا جرائم کا نمونہ سوسائٹی کو دیکھنے ملتاہے ۔ ویسے بھی پاکستان اور بھارت دونوں میں فرقہ واریت کے سلسلہ میں قانون کوگذشتہ ۶۶ برسوں کے دوران اس اندازمیں حرکت دی جاتی رہی ہے کہ وہ مظلوموں کے بجائے حملہ آوروں کوطاقت بہم پہنچانے کا ذریعہ بن رہا ہے ۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاشرے کے افراد میں غیر مذہبی بنیادوں پر اخلاقی قدروں کو عام کرنے کے لیے جامع نظامِ اخلاق ترتیب دیا جائے اور اخلاقیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، بچوں کو پرائمری کی بھی تعلیم نہ دلانے والے والدین کے لئے سزا مقرر ہو اور تمام مذہبی مدارس کو قومی ملکیت میں لے کران میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے لیے جدید تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے البتہ بالغ افراد کے لیے انکی مرضی کی مذہبی تعلیم حاصل کر نے پر کوئی قدغن نہ ہو۔ علاوہ ازیں فرقہ واریت جیسے سنگین مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے مزید برین اسٹورمنگ کی جائے اور مستند دانشوروں کا ایک غیر فرقہ وارانہ مستقل فورم قائم کیا جائے جو فرقہ واریت کے آسیب سے نمٹنے کے لیے مناسب اور دور رس اقدامات تجویز کرے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی صورتِحال قریب قریب ایک ہی جیسی ہے، مگر ہم پاکستانیوں کے لیے یہ امر زیادہ باعثِ شرم ہے کہ یہاں مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ اگر اب بھی فرقہ پرستی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے کوئی سنجیدہ کام نہ کیا گیا تو یقین مانیے اگلے عشرے تک پاکستان اور ہندوستان مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کئی باہم متحارب ملکوں میں بدل چکے ہوں گے۔