برّصغیر پاک و ہند میں فرقہ واریت اور مذہبی تناؤ : از محسن وحدانی

برّصغیر پاک و ہند میںفرقہ واریت کا مسئلہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کی بے عملی اورمعاملہ فہمی کی کمتر صلاحیتوں کی بدولت کینسرکی شکل اِختیار کرتا جارہا ہے اوراس کی جڑیں معاشرےکے اندرگہرائی تک اترجانے کی اصل وجہ بیماری کی شدت نہیں بلکہ علاج کی عدم موجودگی اورتشخیص کے اِلتباسات ہیں۔ قانون کے بارے میں لوگوںنے بہت کچھ خوش فہمیاں قائم کررکھی ہیںلیکن جن لوگوںنے اسے بنایا تھا انہوںنے اس کا تصوّر ہتھیارگھماتے ہوئے ایک نابینا پیکر کی شکل میں پیش کیاتھا یہی سبب ہے کہ قانون کا احترام سب پرفرض ہے ۔ صدیوں سے قانون کا احترام کرتے ہوئے ایک ایسی سوسائٹی کے قیام کا خواب دیکھا جارہا ہے ‘ جس میںپولس اورفوج کی ضرورت باقی نہ  رہے ۔دراصل انسان تعزیرسے زیادہ جرائم کے رجحان سے خوف زدہ رہتاہے ۔ قانون سزا ضرور دے سکتا ہے مگرجرم پرقابونہیں پاسکتا کیونکہ جرائم جب تک انفرادی حدودتک رہتے ہیںقابل تعزیرسمجھے جاتے ہیں لیکن جب وہ اجتماعی عادت بلکہ فطرتِ ثانیہ کی شکل اختیارکرجائیں تو لوگوں کی اکثریت ان کے حق میں ہوجاتی ہے اور  وہیں سے قانون کا عمل بھی تبدیل ہوجاتاہے لہٰذا وہ ان کو روکنے کے بجائے ان کے تحفظ کی خاطراستعمال ہونے لگتاہے ۔ دنیا میںماضی قریب تک امردپرستی اورہم جنس پرستی مذموم فعل اورجرم تھی لیکن آج  برطانیہ ‘سویڈن اورکئی دوسرے مغربی ممالک میں وہ ایک ایسا فعل بن گئی ہے جس پراعتراض کرنا خلاف قانون ہے۔

وطنِ عزیز میں آج احمدیوں، شیعوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور  بھارت میں آسام،   بہار، اترپردیش، گجرات اور مہاراشٹر میںمسلم اقلیت کے خلاف جوکچھ ہوا ہے اس سے بھی اگر کچھ واضح ہوتا ہے تو وہ یہی ہے کہ قانون ایک ایسا ہتھیار ہے جوافراد کے لیے سخت اورمعاشرے کے لیے نرم اور بے بس نظر آنے لگتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرقہ پرستی کے انسداد میں قانون کوئی واضح کردارادانہیں کرسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میںقانون کی حیثیت ایک سپلیمینٹری آبجیکٹ یا ہتھیار کی سی ہوتی ہے  جوحصولِ مقصد میںمددگار و معاون تو ہو سکتا ہے مگر ازخود کچھ نہیں کر سکتا۔ اسے حرکت میںضرورلایا جاسکتا ہے وہ  خودبخود حرکت نہیں کر سکتا۔ فرقہ پرستی معاشرے کی نظرمیں اس طرح کا جرم نہیںجیسا کہ قتل، ڈاکہ زنی اورچوری ہے، یہ الگ بات ہے کہ فرقہ پرستی کی بدولت چوری اورڈاکہ زنی سے کہیں زیادہ سنگین اورروح فرسا جرائم کا نمونہ سوسائٹی کو دیکھنے ملتاہے ۔ ویسے بھی پاکستان اور بھارت دونوں میں فرقہ واریت کے سلسلہ میں قانون کوگذشتہ ۶۶ برسوں کے دوران اس اندازمیں حرکت دی جاتی رہی ہے کہ وہ مظلوموں کے بجائے حملہ آوروں کوطاقت بہم پہنچانے کا ذریعہ بن رہا ہے ۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاشرے کے افراد میں غیر مذہبی بنیادوں پر  اخلاقی قدروں کو عام کرنے کے لیے جامع نظامِ اخلاق ترتیب دیا جائے اور اخلاقیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، بچوں کو پرائمری کی بھی تعلیم نہ دلانے والے والدین کے لئے سزا مقرر  ہو اور تمام مذہبی مدارس کو قومی ملکیت میں لے کران میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے لیے جدید تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے البتہ بالغ افراد کے لیے انکی مرضی کی مذہبی تعلیم حاصل کر نے پر کوئی قدغن نہ ہو۔ علاوہ ازیں فرقہ واریت جیسے سنگین مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے مزید برین اسٹورمنگ کی جائے اور مستند دانشوروں کا ایک غیر فرقہ وارانہ مستقل فورم قائم کیا جائے جو فرقہ واریت کے آسیب سے نمٹنے کے لیے مناسب اور دور رس اقدامات تجویز کرے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی صورتِحال قریب قریب ایک ہی جیسی ہے، مگر ہم پاکستانیوں کے لیے یہ امر زیادہ باعثِ شرم ہے کہ یہاں مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ اگر اب بھی فرقہ پرستی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے کوئی سنجیدہ کام نہ کیا گیا تو یقین مانیے اگلے عشرے تک پاکستان اور ہندوستان مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کئی باہم متحارب ملکوں میں بدل چکے ہوں گے۔

کیا ملّا ریڈیو طالبان دھڑوں کو یکجا رکھ سکے گا؟ ازمحسن وحدانی

امریکی ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کے اچانک مارے جانے  کے بعد پاکستانی طالبان میں یک لخت  قیادت کا بحران پیدا ہو گیا اور پختونوں کی آپس کی پرانی دشمنیاں بھی واضح ہو گئیں،جس کی وجہ سے یہ گروہ ایک متحدہ گروپ کی حیثیت کھو بیٹھا اور طاقت حاصل کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع ہو گئی اوربالآخرسوات کے ملا فضل اللہ عرف ملّا ریڈیو کے سربراہ مقرر ہونے سے صورتِ حال  اور بھی بدتر ہوگئی ہے جس سے تحریک طالبان کی قوّت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ حکیم اللہ محسودکی زندگی میں ہی اس کے بعض معاملات کے باعث  پاکستانی طالبان کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اس کے دست راست لطیف اللہ محسود کی گرفتاری نے افغان حکومت کے ساتھ ان کے روابط کو ظاہرکردیا تھا اور تحریک طالبان پاکستان کے اکثر رہنما اس پر شدید برہم تھے۔بعض طالبان یہ بھی کہتے ہیں کہ  حکیم اللہ محسود کے بارے میں مخبری اسی گرفتارلطیف اللہ محسود نے لاکھوں ڈالر کے لالچ میں کی تھی ۔کئی کمانڈر حکیم اللہ محسود کی حکومتِ  پاکستان کے ساتھ مذاکرات  پر آمادگی کے بھی خلاف تھے۔

نئے لیڈرکےاِنتخاب کے سلسلے میں  طالبان کے مختلف  گروپوں کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور ملّا ریڈیو کے اِنتخاب  نے ان کے درمیان خلیج کو اور بھی گہرا کردیا ہے۔محسود قبائلیوں کے لئے ملّا ریڈیو کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔   ملّا ریڈیو کے انتخاب سے نہ صرف محسود قبائل ناراض ہیں بلکہ آئندہ آنے والے دنوں میں ملّا ریڈیو اور محسود گروپ کے درمیان خانہ  جنگی کا خدشہ موجود ہے۔محسود قبیلے کے لوگ کمانڈر خان  سجنا کے حق میں ہیں جبکہ طالبان شوریٰ نے ملّا ریڈیو کے حق میں فیصلہ دیا اور اسے  نیا ٹی ٹی پی کمانڈر مقرر کیا گیا تو وہاں موجود حریف گروہ کے کئی کمانڈر ناراض ہوکر وہاں سے چلے گئے۔اس اجلاس میں شریک  ایک کمانڈر کے بقول جب ملّا ریڈیو کے نام کا اعلان کیا گیا تو اسکے مخالف وار لارڈز  یہ کہتے ہوئے باہرچلے گئے کہ طالبان  برباد ہوگئے، سب کچھ ختم ہوگیا۔
اِنتہاپسندگروہوں کو ایک جگہ جمع کرنے والی تحریک طالبان آج مالی وسائل اور مقامی  لوگوں کی طرف سے حمایت میں کمی کے باعث افتراق  کا شکار  ہے۔ پنجابی طالبان بھی ٹی ٹی پی کی نئی قیادت سے ناخوش ہیں۔ طالبان اپنی حرکتوں کے باعث عوام میں بھی تیزی سے اپنی حمایت کھو رہے ہیں ۔ علاقے میں درجنوں ایسے جنگجو گروہ پیدا ہوگئے ہیں جن کے اپنے الگ الگ کمانڈرز ہیں اور ہر کسی کا اپنا اپنا مفاداور پروگرام ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ، ملّا ریڈیو اور نائب سربراہ شیخ خالد حقانی کا انتخاب پہلی دفعہ محسود قبائل کے باہر سے کیا گیا ہے جس کی اہم وجہ ایسے سخت گیر اور مذاکرات پر یقین نہ رکھنے والے افراد کو لیڈر بنا کر حکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دینا  ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
اس صورت ِ حال میں یہ واضح ہے کہ ملّا ریڈیو تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت میں فاٹا میں سرگرم چھتیس سے زیادہ انتہا پسند گروہوں کو منظّم رکھتے  ہوئے اپنی کارروائیاں جاری  نہیں رکھ سکے گا ۔ محسود قبیلہ انتہائی سرکش اور جنگجوقبیلہ ہے جو اپنے سردار کے علاوہ محسودقبیلہ انتہائی سرکش اور جنگجوقبیلہ ہے جو اپنے سردار کے علاو     ہ کسی اور کی قیادت نہیں مانتا۔ اِس لیے ملّا ریڈیو کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کمزور ہوجائے گی، اور اس کے ٹکڑے ہوکر تباہ ہونے کے امکانات روشن ہیں۔یاد رہے کہ یہ وہی ملّا ریڈیو ہے جس نے سوات  آپریشن شروع ہوتے ہی بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی تھی۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  فضل اللہ عرف ملّا ریڈیو ، حکیم اللہ محسود سے زیادہ سخت گیر اور متشدّد ہے اور اگر کسی نہ کسی طرح وہ محسودوں اور طالبان کے دیگر دھڑوں میں اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کے عوام خصوصاً مظلوم شیعہ افراد کے لئے خطرات میں بہت اضافہ ہو جائے گا ۔
چالیس سالہ ملّافضل اللہ  عرف ملّا ریڈیو سوات کا پیدائشی باشندہ ہے ۔ وہ یوسف زئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سےتعلق رکھتا ہے اور اسکے  ایک پاؤں میں لنگ بھی  ہے۔ملّا فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے کچھ عرصہ تعلیم بھی حاصل کی ۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ کے قرب و جوار سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد کے نام پر جمع کرکے افغانستان لے گیا جن میں ملّافضل اللہ بھی شامل تھا۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہوا اور تقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہا۔ بعد میں فضل اللہ عرف ملّا ریڈیو اور کئی دوسرے شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ کمین گاہیں  بنا لیں اور  افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں ہماری سکیورٹی فورسز پر افغانستان سے حملے کرتے رہے  ۔
مولوی فضل اللہ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1994ء میں ملّا صوفی محمد کی تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں شمولیت سے کیا۔ بعد ازاں وہ صوفی محمد کی بیٹی کو بھگا کرلے گیا اور بعد میں اس سے شادی کر لی اس طرح وہ  صوفی محمد کے داماد بنا۔فضل اللہ نے  2005میں ایک غیر قانونی ایف ایم ریڈیو شروع کیا جس میں لڑکیوں کی تعلیم، پولیو کے خلاف ٹیکوں اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف تقریریں کرتا تھا ، اِسی لیے  اسے ’ملا ریڈیو‘ کے نام سے  یاد کیا جانے لگا۔ بعد ازاں وہ  اغواء برائے تاوان ، اسکولوں پر حملوں اور عوامی مقامات پر خود کش بم دھماکوںمیں ملّوث رہا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور ان میں سے اکثر کسی مدرسے کے فارغ التحصیل کجا، کبھی کسی مدرسے میں داخل بھی نہیں ہوئے، حتیٰ کہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور ملّا ریڈیو تک نے کوئی باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کی مگر وہ محض بندوق کے زور پر وہ دین نافذ کرنے کے دعوےدار ہیں جس کے متعلق وہ خود زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ان لوگوں کی تفہیمِ دین محض چند قبائلی روایات تک محدود ہے یعنی عورتوں کا گھر میں مقیّد ہونا، بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہونا، ہر بچے کے ہاتھ میں قلم کے بجائے کلاشنکوف دینا،  وغیرہ وغیرہ۔  ان میں سے کئی لوگ غیرملکی  اداروں کے تنخواہ دار ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کے ذریعے لوٹ ماراور منشیات نیز اسلحے کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ کو اپنا  پیشہ بنایا ہوا ہے۔یہ لوگ کم سن لڑکوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں جس کے متعلق مضبوط شواہد کے ساتھ ایک رپورٹ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ یہ آپس میں اس مال کی تقسیم پر لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں جو انہیں بیرونی ممالک کی ایجنسوں سے ملتا  ہے۔  ملّا ریڈیو گروپ بھی انہی طالبان گروپوں میں سے ایک ہے جو بیرونی ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں۔2 نومبر 2009ء کو پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے  واضح طور پر بتایا تھا  کہ سوات اور وزیرستان میں جاری آپریشن  کے دوران طالبان سے بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ اِنتہا پسندوں  کےپاس سے بھارتی لٹریچر اور اسلحہ بھی برآمد ہوتا رہا ہے۔اگرچہ طالبان اور امریکہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر وزیرستان آپریشن شروع ہوتے ہی نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف کی فوجی چوکیاں خالی کر دی تھیں حالانکہ وہ راستے طالبان کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہوتے رہتے تھے۔  امریکی وزیر خارجہ نے ایک موقع پر یہ بات بھی تسلیم کی کہ  دہشت گردوں کی پیدائش کا  امریکہ بھی کچھ ذمہ دار امریکہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ پاکستان نے کابل میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر پر واضح کیا تھاکہ کابل میں سی آئی اے کا اسٹاف  پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی معاونت کر رہا ہےجبکہ اس امر کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ  بھارت وزیرستان میں طالبان کو اسلحہ مہیا کر رہا ہے۔

کیا کراچی خدا حافظ کہہ جائے گا؟

 

 

کیا کراچی خدا حافظ کہہ جائے گا؟

زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس نے سپریم کورٹ بنچ کے روبرو لیاری سمیت کراچی میں بیالیس نو گو ایریاز ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ لیاری کے بارے میں خاص طور پر بتایا گیا کہ وہاں کی تنگ گلیاں جرائم پیشہ لوگوں کے لیے محفوظ اور پولیس کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہیں کیونکہ ان بھول بھلیوں جیسی گلیوں میں نہ پولیس کی گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں نہ ہی موٹر سائیکل پر سوار پولیس کے جوان گشت کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل پولیس نے اِسی بنچ کے سامنے محض سات تھانوں کی حدود میں نو گو ایریاز کا اعتراف کیا تھا جن میں سندھی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان غالب اکثریت میں آباد ہیں، مگر سپریم کورٹ نے اِس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ اِسی بنچ کے روبرو چاکیواڑہ تھانے کے ایس ایچ او نے اپنے بیانِ حلفی میں کہا تھا کہ اسکے تھانے کی حدود میں بر سرِ اقتدار پیپلز پارٹی مجرموں کی سر پرستی کر رہی ہے۔

کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے کئی ٹھکانے ہیں جہاں قانون کی قطعی عملداری نہیں۔ ایسے علاقے درحقیقت مختلف جرائم پیشہ گروہوں، کالعدم تنظیموں اور مسلح گروہوں کے درمیان بانٹے جا چکے ہیں جنہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی اِعانت حاصل ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اِن بیالیس (۴۲) نوگوایریاز میں سے اٹھائیس (۲۸) علاقے جزوی طور پر اورتیرہ (۱۳) علاقے مکمل طور پر نو گو ایریا ہیں۔

 

وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی نے اِسی ماہ سینٹ کو بتایا کہ کراچی میں حالیہ آپریشن کے دوران رینجرز اور پولیس نے 677 چھاپوں میں اب تک نو ہزار جرائم پیشہ افراد گرفتار کیے ہیں۔ آپریشن کے ابتدائی چند ہفتوں میں کراچی میں کرائمز کی تعداد میں کچھ کمی تو ہوئی تھی مگر محرم شروع ہونے سے ایک روز قبل سے ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کی تعداد اچانک بڑھ گئی جس میں زیادہ تر شیعہ افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اِن وارداتوں کو حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا ردِعمل بھی کہا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نو ہزار کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ کراچی کی دونوں جیلوں میں کل تین ہزار سے زیادہ قیدیوں کی گنجائش ہی نہیں جبکہ وہاں پہلے سے آٹھ ساڑھے آٹھ ہزار قیدی پابندِسلاسل ہیں جو کہ گنجائش سے بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے خود اِس دوران کم از کم دس تھانوں کے لاک اپ دیکھے اور کسی تھانے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ملزمان کو پایا جن میں سے زیادہ تر عام قسم کے جرائم، لڑائی جھگڑوں اور ذاتی دشمنیوں یا چیک ڈس آنر ہونے کے ملزمان تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ تین سو ملزمان کے خلاف عدالتوں میں فردِ جرم عائد کی جا سکے گی اور ان میں سے بمشکل پچاس ملزمان کو چھوٹی موٹی سزائیں ہو سکیں گی۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ چودھری صاحب نے ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد کی طرح اِس معاملے میں بھی غلط بیانی کی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ چھاپے کے وقت تو جو سامنے آتا ہے، رینجرز اور پولیس اسے گرفتار کر کے لے جاتی ہے اور پھر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اگر کچھ اگلوانے میں ناکام رہتی ہے اور خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ جائے تو اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کراچی میں جان و مال کے خطرات کے باعث بے شمار لوگ بغیر لائسنس اسلحہ بھی رکھنے لگے ہیں کیونکہ لائسنس لینے کے لئے کسی پی پی پی کے عہدیدار یا ایم پی اے، ایم این اے سے تعلق ہونا ضروری ہے یا پھر رشوت دے کر ہی لائسنس بنوایا جاسکتا ہے۔ لیاری اور سہراب گوٹھ حسب سابق ناجائز اسلحہ کے گڑھ ہیں جو چاہے وہاں سے خرید لے لہٰذا بہت سے ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو کسی قسم کی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار یا چوری چکاری میں ملوث نہ تھے مگر محض خود حفاظتی کے لئے بغیر لائسنس پستول رکھنے کے قصوروار تھے کیونکہ جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار اِدارے قطعی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

کراچی میں اورنگی نمبر ساڑھے آٹھ، سلطان آباد، محمد خان کالونی، منگھوپیر روڈ پر واقع پختون آباد، گرم چشمہ، کٹی پہاڑی سے ملحق ایم پی آر کالونی، بلوچ کالونی، پیر آباد، فرنٹیر کالونی، بنارس کالونی، باوانی چالی، میٹروول، جہان آباد، ضیا کالونی، نارتھ ناظم آباد میں واقع دیر کالونی، عثمان کالونی، عمر فاروق کالونی، رانگڑ کالونی، اور اجمیر نگری کے علاوہ بلدیہ ٹائون، اسلام چوک، اتحاد ٹائون، گلشنِغازی، فرید کالونی، پریشان چوک، طوری بنگش کالونی، موچکو چوکی، شیرشاہ، کلاکوٹ، جمن شاہ پلاٹ، بلوچ ہال، بلال کالونی کورنگی، بنگالی پاڑہ، قائدآباد، شیرپائو کالونی، پہلوان گوٹھ، شاہ فیصل کالونی، الفلاح کالونی، ڈرگ کالونی، سرجانی ٹائون، تیسر ٹائون، گلشنِ معمار، شاہ لطیف ٹائون، کورنگی مہران ٹائون، دائود گوٹھ، سکھن گوٹھ، بھینس کالونی، شرافی گوٹھ، فیڈرل بی ایریا میں جنجال پورہ، برما کالونی اور سہراب گوٹھ وغیرہ وہ علاقے ہیں جو کالعدم تنظیموں خصوصا طالبان اور اسکی ذیلی تنظیموں کا گڑھ ہیں۔ یہاں کئی متحارب تنظیموں کے درمیان اور خود انکے مختلف دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی رہتی ھے اور کبھی کبھار مسلح تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے مگر علاقہ پولیس ان معاملات میں مداخلت کی ہمت نہیں رکھتی۔ رینجرز اور پولیس نے ان علاقوں میں چند ٹارگٹڈ آپریشن کیے ہیں مگر آج تک کسی نمایاں دہشت گرد کی گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ اِن علاقوں میں حکومتی رِٹ قائم نہیں ہے اور پولیس ملازمین رینجرز کی ہمراہی کے بغیر اِن علاقوں میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتے۔۔ یہ علاقے طالبان اور دیگر اِنتہا پسندوں کے مضبوط ٹھکانے ہیں جنکی موجودگی میں وہ کراچی کے کسی بھی علاقے میں دہشت گردانہ کارروائی کرنے کی صلاحیترکھتے ہیں۔

 

قیام امن کے لئے کراچی میں تو رینجرز قطعی ناکام ثابت ہوئی ہے جو عرصہٗ دراز سے یہاں متعین ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کراچی میں پاک فوج براہِ راست آپریشن کرے کیونکہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت کے قائد جناب الطاف حسین کا بھی یہی مطالبہ تھا اور وسیع مینڈیٹ کی مالک اِس جماعت سے زیادہ کون اِس شہر میں امن و امان کا خواہاں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کراچی کا آتش فشاں کسی بھی وقت اچانک پھٹ سکتا ہے اور ایک طویل خانہ جنگی کے بعد وہی کچھ ہو سکتا ہے جسکے خطرے کا اِظہار سپریم کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کیا تھا کہ کراچی اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ منشیات اور اسلحے پر کنٹرول کیا جائے، ورنہ کراچی خدا حافظ کہہ جائے گا۔ یہ امر تو سب کے ہی علم میں ہے کہ منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ اور ملک بھر میں ترسیل کا کام جو ٹرک ڈرائیور، بس ڈرائیوراور عام لوگ حتٰی کہ خواتین تک کرتی ہیں ان کا تعلق کس لسانی گروہ سے ہے اور اِنتہا پسندوں میں بھی اکثریت اسی مخصوص لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے مگر اسٹریٹجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کے حصول کے جواز کے طور پر ہم ہنوز اِس گروہ کی سرگرمیوں سے چشم پوشی پر مجبور ہیں۔

 

Altaf condemns police arrest of MQM activists in Karachi

محسن وحدانی کا بلاگ: کیا کراچی پاکستان کو خدا حافظ کہہ جائے گا؟

زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس نے سپریم کورٹ بنچ کے روبرو لیاری سمیت کراچی میں بیالیس نو گو ایریاز ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ لیاری کے بارے میں خاص طور پر بتایا گیا کہ وہاں کی تنگ گلیاں جرائم پیشہ لوگوں کے لیے محفوظ اور پولیس کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہیں کیونکہ ان بھول بھلیوں جیسی گلیوں میں نہ پولیس کی گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں نہ ہی موٹر سائیکل پر سوار پولیس کے جوان گشت کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل پولیس نے اِسی بنچ کے سامنے محض سات تھانوں کی حدود میں نو گو ایریاز کا اعتراف کیا تھا جن میں سندھی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان غالب اکثریت میں آباد ہیں، مگر سپریم کورٹ نے اِس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ اِسی بنچ کے روبرو چاکیواڑہ تھانے کے ایس ایچ او نے اپنے بیانِ حلفی میں کہا تھا کہ اسکے تھانے کی حدود میں بر سرِ اقتدار پیپلز پارٹی مجرموں کی سر پرستی کر رہی ہے۔

Rangers8Rangers1Rangers7 کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے کئی ٹھکانے ہیں جہاں قانون کی قطعی عملداری نہیں۔ ایسے علاقے درحقیقت مختلف جرائم پیشہ گروہوں، کالعدم تنظیموں اور مسلح گروہوں کے درمیان بانٹے جا چکے ہیں جنہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی اِعانت حاصل ہےپولیسرپورٹ کے مطابق اِن بیالیس (۴۲) نوگوایریاز میں سے اٹھائیس (۲۸) علاقے جزوی طور پر اورتیرہ (۱۳) علاقے مکمل طورپر نو گو ایریا ہیں۔

 Rangers5Mohsin Vehdani CollectionRangers2

وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی نے اِسی ماہ سینٹ کو بتایا کہ کراچی میں حالیہ آپریشن کے دوران رینجرز اور پولیس نے 677چھاپوں میں اب تک نو ہزار جرائم پیشہ افراد گرفتار کیے ہیں۔ آپریشن کے ابتدائی چند ہفتوں میں کراچی میں کرائمز کی تعداد میں کچھ کمی تو ہوئی تھی مگر محرم شروع ہونے سے ایک روز قبل سے ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم کی تعداد اچانک بڑھ گئی جس میں زیادہ تر شیعہ افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اِن وارداتوں کو حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا ردِعمل بھی کہا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نو ہزار کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ کراچی کی دونوں جیلوں میں کل تین ہزار سے زیادہ قیدیوں کی گنجائش ہی نہیں جبکہ وہاں پہلے سے آٹھ ساڑھے آٹھ ہزار قیدی پابندِسلاسل ہیں جو کہ گنجائش سے بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے خود اِس دوران کم از کم دس تھانوں کے لاک اپ دیکھے اور کسی تھانے میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ملزمان کو پایا جن میں سے زیادہ تر عام قسم کے جرائم، لڑائی جھگڑوں اور ذاتی دشمنیوں یا چیک ڈس آنر ہونے کے ملزمان تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ تین سو ملزمان کے خلاف عدالتوں میں فردِ جرم عائد کی جا سکے گی اور ان میں سے بمشکل پچاس ملزمان کو چھوٹی موٹی سزائیں ہو سکیں گی۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ چودھری صاحب نے ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد کی طرح اِس معاملے میں بھی غلط بیانی کی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ چھاپے کے وقت تو جو سامنے آتا ہے، رینجرز اور پولیس اسے گرفتار کر کے لے جاتی ہے اور پھر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اگر کچھ اگلوانے میں ناکام رہتی ہے اور خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ جائے تو اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کراچی میں جان و مال کے خطرات کے باعث بے شمار لوگ بغیر لائسنس اسلحہ بھی رکھنے لگے ہیں کیونکہ لائسنس لینے کے لئے کسی پی پی پی کے عہدیدار یا ایم پی اے، ایم این اے سے تعلق ہونا ضروری ہے یا پھر رشوت دے کر ہی لائسنس بنوایا جاسکتا ہے۔ لیاری اور سہراب گوٹھ حسب سابق ناجائز اسلحہ کے گڑھ ہیں جو چاہے وہاں سے خرید لے لہٰذا بہت سے ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو کسی قسم کی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار یا چوری چکاری میں ملوث نہ تھے مگر محض خود حفاظتی کے لئے بغیر لائسنس پستول رکھنے کے قصوروار تھے کیونکہ جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار اِدارے قطعی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

      rangersoperation.karachi-pakistan-orangi_10-6-2013_121304_lRangers4     Ranger-surch-operation-Photo-Online1-640x480-480x238

 کراچی میں اورنگی نمبر ساڑھے آٹھ، سلطان آباد، محمد خان کالونی، منگھوپیر روڈ پر واقع پختون آباد، گرم چشمہ، کٹی پہاڑی سے ملحق ایم پی آر کالونی، بلوچ کالونی، پیر آباد، فرنٹیر کالونی، بنارس کالونی، باوانی چالی، میٹروول، جہان آباد، ضیا کالونی، نارتھ ناظم آباد میں واقع دیر کالونی، عثمان کالونی، عمر فاروق کالونی، رانگڑ کالونی، اور اجمیر نگری کے علاوہ بلدیہ ٹائون، اسلام چوک، اتحاد ٹائون، گلشنِغازی، فرید کالونی، پریشان چوک، طوری بنگش کالونی، موچکو چوکی، شیرشاہ، کلاکوٹ، جمن شاہ پلاٹ، بلوچ ہال، بلال کالونی کورنگی، بنگالی پاڑہ، قائدآباد، شیرپائو کالونی، پہلوان گوٹھ، شاہ فیصل کالونی، الفلاح کالونی، ڈرگ کالونی، سرجانی ٹائون، تیسر ٹائون، گلشنِ معمار، شاہ لطیف ٹائون، کورنگی مہران ٹائون، دائود گوٹھ، سکھن گوٹھ، بھینس کالونی، شرافی گوٹھ، فیڈرل بی ایریا میں جنجال پورہ، برما کالونی اور سہراب گوٹھ وغیرہ وہ علاقے ہیں جو کالعدم تنظیموں خصوصا طالبان اور اسکی ذیلی تنظیموں کا گڑھ ہیں۔ یہاں کئی متحارب تنظیموں کے درمیان اور خود انکے مختلف دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی رہتی ھے اور کبھی کبھار مسلح تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے مگر علاقہ پولیس ان معاملات میں مداخلت کی ہمت نہیں رکھتی۔ رینجرز اور پولیس نے ان علاقوں میں چند ٹارگٹڈ آپریشن کیے ہیں مگر آج تک کسی نمایاں دہشت گرد کی گرفتاری کی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ اِن علاقوں میں حکومتی رِٹ قائم نہیں ہے اور پولیس ملازمین رینجرز کی ہمراہی کے بغیر اِن علاقوں میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتے۔۔ یہ علاقے طالبان اور دیگر اِنتہا پسندوں کے مضبوط ٹھکانے ہیں جنکی موجودگی میں وہ کراچی کے کسی بھی علاقے میں دہشت گردانہ کارروائی کرنے کی صلاحیترکھتے ہیں۔

قیام امن کے لئے کراچی میں تو رینجرز قطعی ناکام ثابت ہوئی ہے جو عرصہٗ دراز سے یہاں متعین ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کراچی میں پاک فوج براہِ راست آپریشن کرے کیونکہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت کے قائد جناب الطاف حسین کا بھی یہی مطالبہ تھا اور وسیع مینڈیٹ کی مالک اِس جماعت سے زیادہ کون اِس شہر میں امن و امان کا خواہاں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کراچی کا آتش فشاں کسی بھی وقت اچانک پھٹ سکتا ہے اور ایک طویل خانہ جنگی کے بعد وہی کچھ ہو سکتا ہے جسکے خطرے کا اِظہار سپریم کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کیا تھا کہ کراچی اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ منشیات اور اسلحے پر کنٹرول کیا جائے، ورنہ کراچی خدا حافظ کہہ جائے گا۔ یہ امر تو سب کے ہی علم میں ہے کہ منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ اور ملک بھر میں ترسیل کا کام جو ٹرک ڈرائیور، بس ڈرائیوراور عام لوگ حتٰی کہ خواتین تک کرتی ہیں ان کا تعلق کس لسانی گروہ سے ہے اور اِنتہا پسندوں میں بھی اکثریت اسی مخصوص لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے مگر اسٹریٹجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کے حصول کے جواز کے طور پر ہم ہنوز اِس گروہ کی سرگرمیوں سے چشم پوشی پرمجبور ہیں۔